Sunday, February 14, 2016

کچھ ویلنٹائن کے بارے میں

کیا ویلنٹائن منانا اچھا ہے یا برا، حلال ہے یا حرام، اسلام سے متصادم ہے یا کفّار کی ترغیب - جو بھی کہا جاتا ہے سب درست ہے ، سہی ہے اور.... ایک ہجوم بیکراں  ہے 

شاید آپ مجھ سے اختلاف کریں کہ ہم مختلف دن مناتے ہیں جنکا پہلے وجود نہ تھا ہمارے معاشرے میں - پر اب اقدار بدلی ہیں تو اس میں سب ہی برابر کے شریک ہیں چاہے علماء ھوں یا جہلا - سہی کیا ہے اور غلط کیا، ہمارا مذہب  نے سب بیان کیا ہے اور احادیث بھی موجودہیں - سب کچھ وازے ہے مگر کون کیسکو سمجھاتے اور کیونکر - ہر ایک عالم دین ہے اور بزعم خود دین کا تشریح کنندہ بھی - سو ہر ایک اپنی بولی بولتا ہے اور چاہتا ہے ک سب اس پہ ایمان لے آئین  

اسلام نے جو معاشرتی اصول وضا کئے ہیں انکو پس پشت ڈال دیا گیا ہے  تو ہم کوئی ایک دن منا کے اپنا فرض پورا کرتے ہیں جیسے باقی دنوں میں نہ تو کوئی رشتہ ہیں اور نہ ہی اسکی کوئی اہمیت. - دنوں کو مناتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ ایک دن اور ہے اور وہ ہے قیامت کا 

اسلام کا درد رکھنے والے یہ بتائیں کہ لوگوں کو حرام اور حلال بتانا اہم ہے یا بھوکے کو کھانا کھلانا، بے لباس کی ستر پوشی کرنا، علم سے بے بہرہ لوگوں کو آ آگہی دینا ضروری ہے یا کفر کا فتویٰ عام  کرنا - کوئی بتا ے یا نہ بتاے  پر سب جانتے ہیں سچ کیا ہے 

جیسا کہ ابتدا میں ہجوم بیکراں کی بات کی گئی اسکا حصّہ ہم سب ہیں ورنہ مسلمان تو جسم واحد کی مانند ہیں - لہٰذا جب کوئی وحدت نہیں تو اک ہجوم ہی ہے - انسان اور جانور میں کیا فرق ہے  جو جانتا ہے چپ ہے جو نہیں جانتا وہ بولتا ہے جیسے خالی برتن بجتا ہے - لہٰذا ویلنٹائن کی بحث لا یعنی ہے 

نوٹ: نہ تو میں مفتی ہوں، نہ کوئی علمبردار - اک سوچ ہے جو بیان کردی - ماننا یا نا ماننا اپنی اپنی صوابدید پر ہے 





Monday, February 8, 2016

کچھ اپنے بارے میں

 کچھ لوگ سیدھے سادے ، کچھ عالم فاضل اور کچھ دانا و باشعور ہوتے ہیں- راقم کا ان تمام لوگوں سے کوئی علاقہ نہیں- ویسے تو آپ بھی عقلمند، زیشعور دکھتے ہیں اور پڑھے لکھے بھی! خیر بات ہو رہی ہے کچھ اپنے بارے میں تو جناب آپ مجھے نہیں جانتے اور نہ ہی میں آپکو - وجہ تحریر یہی ہے کہ آپ راقم کو جان پائیں - اطلا عرض ہے کہ فدوی شادی شدہ ہے- آه میرا درد، دکھ، رنج، الم اور غم سب آپ پر منکشف ہو چکا 


یہ تحاریر نہ تو کوئی سند ہیں اور نہ ہی کوئی علمی خزانہ بلکہ متفرق خیالات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے جس سے کسی کا بھلا نہ تو مقصود ہے نہ ہی یہ میرا مذاق ہے- اگر کوئی بات آپکو اچھی لگے تو براہ کرم بتائیے گا نہیں کہ لوگوں کی آرا آپکے بارے میں تبدیل ہونے کا قوی احتمال ہے 


حقیقی معنوں میں راقم ابھی طفل مکتب ہے لہٰذا قلم کی گرفت، انداز تحریر، الفاظ کا چناؤ اور بامعنی بات .... چہ معنی دارد - اپنے جوابات، خیالات اور احساسات کا اظہار ضرور کیجئے گا کہ اصلاحات کی ضرورت بدرجہ اتم ہے بصورت دیگر آپکو اپنا ہم پلہ، ہم نوالہ و ہم پیالہ متصور کیا جاوے گا - شکریہ 

طبّی مشورہ

فلاح انسانیت اور خدمت خلق کے لیے راقم نے قدیم رسالہ جات اور کتب سے استفادہ کیا اور حاذق اطبا کے آگے زانو تلمذ طے کیا - برسوں کی تحقیقات سے ایسا نادر و نایاب نسخہ حاصل کیا جو انسانی بقا و دوام  کے لئے مفید ہے - یہ بمثل  نسخہ عوام  کی فلاح و بہبود کے لئے پیش خدمت ہے - ادویہ کی قیمت کچھ زیادہ نہیں اور بآسانی دستیاب ہے - اس بیش قیمت نسخے کی ایک ہی خوراک ہر طرح کی بیماری سے خلاصی کرا دے گی- خیال رہے کہ دوا خالص ہو وگرنہ پیچیدگی بیماری کی بھی ہوگی اور قانونی بھی 

لازوال دوا کے اجزا حسب ذیل ہیں

نوشادر      ایک چھٹانک 
نمک         تین ماشے 
ادرک        ایک چھٹانک 
نیلا تھوتھا   ایک پاؤ 
لٹھہ           حسب ناپ 
چٹائی        دو عدد 
کافور        ایک بوتل 
پھول        حسب ضرورت 
چارپائی     ایک عدد 
تختہ          ایک عدد 

یاد رہے کہ اس کاوش کا مقصد فلاح انسانیت ہے - راقم اس نسخہ کے استمعال ، نقصان  اور کسی بھی قانونی، سماجی اور معاشرتی گرفت سے آزاد ہو گا - مزید برآں  یہ نسخہ آپکو اپنے پروردگار کی معرفت عطا کرے گا جبکہ محقق ہر لحاظ سے بری ذمہ متصور ہوگا 

آپکی دائمی صحت کے لئے کوشاں 
حکیم حاذق 

آپکا الله مالک 

اکثر شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے

اکثر شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں، بیتے ہوے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی، اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر

وہ بچپن اور وہ سادگی ، وہ رونا اور ہنسنا کبھی
پھر وہ جوانی کے مزے، وہ دل لگی وہ قہقہے
وہ عشق وہ عہد وفا، وہ وعدہ  اور وہ  شکریہ
وہ لذّت بزم طرب، یاد آتے ہیں ایک ایک سب
دل کا کنول جو روز و شب،رہتا شگفتہ تھا سو اب
اسکا یہ ابتر حال ہے، اک سبزہ پامال ہے
اک پھول کملایا ہوا، سوکھا ہوا بکھرا ہوا
روندا پڑا ہے خاک پر

یونہی  شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی خامیاں، بیتے ہووے دن رنج کے
بنتے ہیں شام بیکسی، اور ڈالتے ہیں روشنی
ان حسرتوں کی قبر پر

جو آرزوئیں پہلے تھیں، پھر غم سے حسرت بن گیں 
غم دوستوں کے فوت کا، انکی جوان موت کا 
لے دیکھ شیشے میں میرے،ان حسرتوں کا خون ہے 
جو گردش ایام سے، جو قسمت ناکام سے 
یا ایسے غم انجام سے، مرگ بت گلفام سے 
 خود میرے غم میں مر گیں،کسطرح پاؤں میں حزیں 
قابو دل بے صابر پر 

  جب آه ان احباب کو، میں یاد کر اٹھتا ہوں جو 
یوں مجھ سے پہلے اٹھ گئے، جسطرح طائر باغ کے 
یا جیسے پھول اور پتیاں، گر جائیں سن قبل خزاں 
اور خشک رہ جاے شجر 

اس وقت تنہائی میری، بن کے مجسم بیکسی 
کر دیتی ہے پیش نظر، ھو حق سا اک ویران گھر 
برباد جسکو چھوڑ کے، سب رہنے والے چل بسے 
ٹوٹے کواڑ اور کھڑکیاں، چھت کے ٹپکنے کے نشان 
پر نالے ہیں روزن نہیں، یہ حال ہیں آنگن نہیں 
پردے نہیں چلمن نہیں، اک شمع تک روشن نہیں 
میرے سوا جس میں کوئی، جھانکے نہ بھولے سے کوئی 
وہ خانہ خالی ہے دل، پوچھے نہ جسکو دیو کوئی 
اجڑا ہوا ویران گھر 

اکثر شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں، بیتے ہوے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی، اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر