Monday, February 8, 2016

اکثر شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے

اکثر شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں، بیتے ہوے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی، اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر

وہ بچپن اور وہ سادگی ، وہ رونا اور ہنسنا کبھی
پھر وہ جوانی کے مزے، وہ دل لگی وہ قہقہے
وہ عشق وہ عہد وفا، وہ وعدہ  اور وہ  شکریہ
وہ لذّت بزم طرب، یاد آتے ہیں ایک ایک سب
دل کا کنول جو روز و شب،رہتا شگفتہ تھا سو اب
اسکا یہ ابتر حال ہے، اک سبزہ پامال ہے
اک پھول کملایا ہوا، سوکھا ہوا بکھرا ہوا
روندا پڑا ہے خاک پر

یونہی  شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی خامیاں، بیتے ہووے دن رنج کے
بنتے ہیں شام بیکسی، اور ڈالتے ہیں روشنی
ان حسرتوں کی قبر پر

جو آرزوئیں پہلے تھیں، پھر غم سے حسرت بن گیں 
غم دوستوں کے فوت کا، انکی جوان موت کا 
لے دیکھ شیشے میں میرے،ان حسرتوں کا خون ہے 
جو گردش ایام سے، جو قسمت ناکام سے 
یا ایسے غم انجام سے، مرگ بت گلفام سے 
 خود میرے غم میں مر گیں،کسطرح پاؤں میں حزیں 
قابو دل بے صابر پر 

  جب آه ان احباب کو، میں یاد کر اٹھتا ہوں جو 
یوں مجھ سے پہلے اٹھ گئے، جسطرح طائر باغ کے 
یا جیسے پھول اور پتیاں، گر جائیں سن قبل خزاں 
اور خشک رہ جاے شجر 

اس وقت تنہائی میری، بن کے مجسم بیکسی 
کر دیتی ہے پیش نظر، ھو حق سا اک ویران گھر 
برباد جسکو چھوڑ کے، سب رہنے والے چل بسے 
ٹوٹے کواڑ اور کھڑکیاں، چھت کے ٹپکنے کے نشان 
پر نالے ہیں روزن نہیں، یہ حال ہیں آنگن نہیں 
پردے نہیں چلمن نہیں، اک شمع تک روشن نہیں 
میرے سوا جس میں کوئی، جھانکے نہ بھولے سے کوئی 
وہ خانہ خالی ہے دل، پوچھے نہ جسکو دیو کوئی 
اجڑا ہوا ویران گھر 

اکثر شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں، بیتے ہوے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی، اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر


No comments:

Post a Comment